بھارتی آبی جارحیت پر اتر آیا ، پاکستانی دریائوں کا پانی روکنے کا خطرناک منصوبہ

 

 

 

 

 

از:سہیل شہریار

بھارت نےپہلگام دہشت گرد حملے کا الزام پاکستان کے سر تھوپنے کے بعداب سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے چناب کاپانی روکنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش میں بھی ہندوستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کےمعاملے پر خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ خدشات خاص طور پر اس لئے ا ہم ہیں کیونکہ انڈو بنگلہ دیش گنگا واٹر ٹریٹی کی آئندہ برس 2026 میں تجدید ہونی ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بعد صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میںدریائے چناب پر بنائے گئے سلال اور بگلہار ڈیموں سے ڈی سیڈی منٹیشن یعنی ریت کی صفائی کے کام کا آغاز کر دیا ہے ۔اور وہ یہ کام معاہدے کے تحت پاکستان کی پیشگی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں یکم سے تین مئی کے دوران بگلہار اور سلال ڈیموں سےبڑے پیمانے پر پانی چھوڑا گیا ہے۔تاکہ جھیلوں کو خالی کرکے ریت کی نکاسی کاکام مکمل کیا جا سکے۔اور یوں ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس میں بھارت کی نیشنل ہائیڈرو پاور کمپنی کے ذمہ داران نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ معطل ہونے کے بعد ہندوستان کو فری ہینڈ مل گیا ہے ۔ اب وہ دریائے چناب پر جب چاہے پاکستان کے پانی کو روک یا چھوڑ سکتا ہے۔ورنہ معاہدے کے تحت وہ ہر اقدام سے پہلے پاکستان کو آگاہ کرنے کا پابند تھا۔ تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ بھارت اس وقت دریائے سندہ کے پانی کو نہیں روک سکتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کام سے پاکستان کو فوری طور پر سپلائی کا خطرہ نہیں ہو سکتا۔ جس کا زیادہ تر آبپاشی اور پن بجلی پیدا کرنے کے لیے بھارت سے بہنے والے دریاؤں پرانحصار ہے۔ لیکن دریاؤں پر بنائے گئے دیگرچھ منصوبے اسی طرح کی کاروائی شروع کرتے ہیں تو بالآخر دریائے چناب سے پاکستان کو سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔
پہلگام حملہ کے بعد دونوں ہمسایہ ایٹمی ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کے ساتھ بھارت کے سندھ طاس معاہدے کی یک طرفہ معطلی کے نتیجے میں گرم گرمی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر آب نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ "اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ دریائے سندھ کا پانی پاکستان تک نہ پہنچے”۔تو اسکے جواب میں وزیر اعظم سمیت پاکستان کےتمام اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نےکھلے لفظوں میں کہا ہے کہ پانی ملک کے 24کروڑ عوام کی زندگی کا ذریعہ ہے ۔چنانچہ اسے بند کرنے کی کسی بھی کوشش کو ملک کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔
1960 کے معاہدے کے تحت جس نے دریائے سندھ اور اس کےمعاون دریاؤں کو پڑوسیوں کے درمیان تقسیم کیا تھا۔ بھارت پابند ہےکہ بھارت سے بہنے والے دریاؤں کے مختلف مقامات پر ہائیڈروولوجیکل بہاؤ کے ڈیٹا کو شیئر کرے اور بروقت سیلاب کی وارننگ بھی جاری کرے۔پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر بنائے گئے ڈیموں کی جھیلوں میں پانی کے ذخیرے سمیت تمام معلومات اوراقدامات کی بر وقت اطلاع دے۔


بنگلہ دیش کو بھی پاکستان کی طرح بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا سامنا ہے۔اور اس صورتحال میں دونوں ملکوں کے درمیان 1996میں طے پانے والے گنگا پانی معاہدے کی آئندہ سال تجدید ہونا ہے ۔ بنگلہ دیش کو خدشہ ہے کہ بھارت اس معاملے کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرے گا۔ کیونکہ بنگلہ دیش سے بھارت نواز حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے اور بھارت کے اسے پناہ دینے کے بعد تعلقات میںگراوٹ آئی ہے۔ جبکہ ملک کی عبوری حکومت کے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری ہندوستان کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔سونے پر سہاگہ یہ ہےکہ بنگلہ دیش کے عبوری چیف ایڈوائزر محمد یونس نے چین کو بھارت کے حساس شمال مشرقی علاقے میں سلیگوری کوریڈور کے قریب ایک اسٹریٹجک اڈہ تیار کرنے کے بنگلہ دیش کے منصوبے میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی ہے۔ جس میں لالمنیرہاٹ ایئر بیس کی بحالی بھی شامل ہے۔ جبکہ اس کے جواب میں بھارت نے 8 اپریل 2025 سے برآمدی کارگو کے لیے بنگلہ دیش کی ٹرانس شپمنٹ کی سہولت کو منسوخ کر دیا ہے۔
بھارت-بنگلہ دیش گنگا واٹر ٹریٹی پر 12 دسمبر 1996 کو ہندوستانی وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور حسینہ واجد نے دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کے تحت پر طرح کے موسمی حالات میں بنگلہ دیش میں پانی کے کم از کم بہاؤ کی ضمانت دی گئی ہے۔تین دہائیوں پر محیط یہ معاہدہ اب 2026 میں تجدید کے لیے مقرر ہے۔ جو کہ "باہمی رضامندی” سے مشروط ہے۔ 1996 کے معاہدے کے آرٹیکل 12میں کہا گیا ہے کہ "یہ معاہدہ دستخط کے بعد نافذ العمل ہوگا اور تیس سال کی مدت تک نافذ رہے گا، اور یہ باہمی رضامندی کی بنیاد پر قابل تجدید ہوگا۔” اہم بات یہ ہے کہ تجدید خودکار نہیں ہے۔ باہمی رضامندی کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان مفاہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی فریق اگر وہ اسے غیر ضروری سمجھے تو معاہدہ کی تجدید نہ کرنے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارتی روئیے کے تناظر میں یہی بات بنگلہ دیش کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More