از: سہیل شہریار
حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے گندم سمیت دیگر زرعی اجناس کی امدادی قیمتوں کاتعین بند کر دیا ہے۔اس فیصلے کا اطلاق حالیہ ربیع کی فصل سے ہو گا۔جسکے نتیجے میں خاص طور پر گندم کے کاشتکاروں کے بری طرح متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ جبکہ دوسری جانب پنجاب میں کاشتکاروں کے لئےسبز انقلاب کے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔
وفاقی حکومت نے ہر سال اہم فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت کے تقرر کو ختم کرتے ہوئے ملک میں زرعی اجناس کی مارکیٹنگ کے نظام میں اپنی مداخلت روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میںشامل شرائط کے مطابق اس سال سے گندم کی کم از کم امدادی قیمت مقرر نہیں کی جائے گی۔ موجودہ سال کے لیے کافی گندم دستیاب ہے۔ اور تخمینہ ہے کہ گندم درآمد کرنے کی ضرورت پیش نہیںآئےگی۔ اسی لئے صوبوں یا اضلاع کے درمیان گندم کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
مگرسوال یہ ہے کہ حکومت کی مداخلت کے بغیر گند م کے کاشتکار کو مڈل مین یا آڑھتی کے چنگل سے کیسے بچایا جائے گا۔ ذرائع کا کہناہے کہ اس کے لئےحکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہے کہ کسانوں کو تجارتی بینکوں کے ذریعے گندم ذخیرہ کرنے کی سہولت دستیاب ہو۔تاہم اس مصوبے پر کافی کام ہونا باقی ہے ۔کاشتکار پہلے ہی مالی پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ ایسے میں انکے لئےگندم کو سنبھالنے کا مناسب بندوبست نہ کیا گیا اور انہیں آڑھتی کے حوالے کر دیا گیا توملکی زراعت پر اسکے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔یہیں ایک اہم معاملہ چھوٹے کسان کا بھی ہے ۔جسے فصل کے لئے باردانہ بھی نہیںملتا تو بنکوں سے فصل ذخیرہ کرنے کی سہولت کون دے گا۔
کئی دہائیوں سے جاری زرعی اجناس کی امدادی قیمت کے تعین کے حکومتی اقدام کا مقصد گندم کی اندرو ن ملک قیمت کو درآمدی قیمت سے نیچے رکھ کر صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو کم کرکے اور امدادی قیمت کی ضمانت دے کر کاشتکار کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔اور خبر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے آئی ایم ایف معاہدے کی پاسداری کا فیصلہ سنا دیا ہے۔تاہم کمیٹی نے زیادہ گرمی اور کم بارشوں کی وجہ سے آئندہ سال گندم کی ممکنہ قلت پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے وزارت پر زور دیا ہے کہ وہ بحران سے بچنے کے لیے فعال اقدامات کرے۔ جبکہ جاری چیلنجوں کی روشنی میں کمیٹی نے وزارت سے کہا ہے کہ وہ ملک میں گندم سمیت دیگر اہم اجناس کی پیداوار میں اضافے کے لئے 20 سالہ تفصیلی روڈ میپ تیار کرے جس کا مقصد آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جدید تحقیق اور جدید تکنیک کے ذریعے زرعی پیداوار کو نمایاں طور پر بڑھایا جا سکے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے کسانوں کی مدد کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے ہیں۔ جن میں کسان کارڈ، گرین ٹریکٹر پروگرام،
زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن اور سموگ سے نمٹنے کے لیے سپر سیڈرز کی فراہمی شامل ہیں۔اور اب پاکستان گرین انیشی ایٹو (جی پی آئی)کے تحت چولستان کے بنجر صحرائی علاقے کو سر سبز وشاداب بنانے کے لئے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔جسکا افتتاح گذشتہ ہفتے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کیا ہے ۔
اس منصوبے کے اہم اجزاء گرین ایگری مال اینڈ سروس کمپنی، اسمارٹ ایگری فارم اور ایگری ریسرچ اینڈ فیسیلی ٹیشن سینٹر ہیں۔ گرین ایگری مال اینڈ سروس کمپنی کسانوں کے لیے ایک "ون سٹاپ حل” ہوگی ۔ جو انھیں اعلیٰ پیداوار والے بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات اور ایندھن ان کی دہلیز پر سرکاری نرخوں پر فراہم کرے گی۔اسی طرح کاشتکاری کی جدید مشینیں بشمول ٹریکٹر اور ڈرون بھی کسانوں کو کرائے پر دی جائیں گی۔5,000 ایکڑ پر مشتمل اسمارٹ ایگری فارم کو ’ہائی ایفیشنسی ایریگیشن سسٹم‘ یا کم سے کم پانی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فصل کی پیداوار کےجدید نظام سے سیراب کیا جائے گا۔جبکہ ایگری ریسرچ اینڈ فیسیلی ٹیشن سینٹر کسانوں کو تکنیکی معلومات اور لیبارٹری خدمات فراہم کرے گا بشمول مٹی کی جانچ۔ یہ مرکز زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان بھر کے تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کرے گا۔