امریکی ٹیرف ،پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کیلئے برآمدات میں اضافے کا نادر موقع

 

 

 

 

 

 

از:سہیل شہریار

 

امریکہ کے چین سمیت دیگر ملکوں کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگائے جانے کے بعد پاکستان اور خطے کے دیگر ملکوں کے لئے اپنی برآمدات میں اضافے کے نئے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔جن سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان میں حکومتی سطح پرفوری اقدامات اٹھاتے ہوئے برآمدی مصنوعات کی لاگت میں کمی کے ساتھ برآمد کنندگان کو مسابقتی ماحول میں نئے اور بڑے آرڈرز کے حصول کوممکن بنانے میں مدد دینا ہوگی۔تاکہ پاکستان کا 2027تک اپنی برآمدات کو 60ارب ڈالر سے بڑھانے کے ہدف کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔
مگر بظاہر ایسا لگ رہا ہےکہ حکومت کے معاشی پالیسی سازوںکی تمام تر توجہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر مرکوز ہے اور اس کے لئے ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اندھا دھندفنڈ کی شرائط پوری کی جارہی ہیں ۔ جن سے ملک کی معیشت بالعموم اور صنعتی شعبہ بالخصوص بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
ملک بھر کے ایوان ہائے صنعت و تجارت ہوںیا پاکستان بزنس کونسل جیسے پیداواری شعبہ کے نمائندہ ادارے سبھی دہائی دے رہے ہیں ۔مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اوپر سے نیچے تک حکومت کے تمام کل پرزے آئی ایم ایف کے سحر کا شکار ہو گئے ہیں۔ اور سب پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ قرضے کے پروگرام کا پہلا جائزہ کامیابی سے مکمل کرنا ہے۔ اور اس کے لئے فنڈ کی تمام شرائط پوری کرنی ہیں خواہ ان کے نتیجے میں ملکی صنعت خصوصاً برآمدی شعبہ اپنی مقابلے کی صلاحیت سےمحروم ہو جائے۔ اور ملکی معیشت کی حقیقی بحالی کے لئے برآمدات میں تیزی سے نمایاں اضافے کا ہدف اپنی موت آپ مر جائے۔
پاکستان بزنس کونسل نے حال ہی میں وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں صنعتی شعبے کی اسی حالت زار کا رونا رویا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے ملک کے اندر صنعتی شعبے کے لئے بجلی اور گیس کے نرخوں میںدوگنا سے بھی زیادہ اضافے سے برآمدی مصنوعات کی مسابقتی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اس سے امریکہ کے چینی مصنوعات پر عائد کردہ اضافی ٹیکسوں سے پیدا ہونے والے برآمدی مواقع کے حصول سے پاکستانی برآمدی شعبہ پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے محروم رہے گا۔اور نتیجتاً 2027تک ملکی برآمدت کو 60ارب ڈالر تک بڑھانے کا وزیر اعظم کا مقرر کردہ ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔
صنعتی شعبے کے نمائندہ ادارے نے وزیر اعظم سے صنعتی پیداوار کی ان پٹس کی قیمت کو خطے کے دیگر ملکوں سے مسابقتی سطح پر لانے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک کے اندر اپنی ضرورت کی بجلی آپ پیدا کرنے والی صنعتوں (سی پی پیز) کے لئے گیس کے نرخوں کو دوگنا کر دیا گیا ہے۔ اور 18فیصد اضافہ ابھی گذشتہ ماہ کے آخر میں کیا گیا ہے ۔ چنانچہ 2023میں گیس کے جو نرخ 24سو روپے یا 8.8ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ(ایم ایم بی ٹی یو) تھے اب بڑھ کر 42سو روپے یا 15ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔اور یہ نرخ بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا کے تقابل میں تقریباً دوگنا ہیں۔

اور اسی پر بس نہیںحکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں 20 فیصد تک خصوصی لیوی لگانے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا ہےجو اگلے سال اگست میں ختم ہونے والے چار مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ اتوار سے 5 فیصد لیوی کے نفاذ کے ساتھ نافذ العمل ہو گیا ہے جبکہ دوسرا مرحلہ جولائی میں شروع کیا جائے گا۔
پی بی سی کے خط کے مطابق ایسی ہی صورتحال بجلی کے نرخوں کے ساتھ بھی ہے پاکستان میں انڈسٹری کے لیے 17 امریکی سینٹ فی یونٹ بجلی کے نرخ پہلے ہی سب سے زیادہ ہیں۔اس کے مقابلے میں بھارت اور ویتنام میں صنعتی ٹیرف 6 سے 8 سینٹ فی یونٹ اور بنگلہ دیش اور دیگر جگہوں پر 9 سے 10 سینٹ فی یونٹ ہے۔
پاکستان بزنس کونسل نے وزیر اعظم سے برآمدی صنعتی شعبے کی مسا بقتی صلاحیت میں اضافے کی استدعا کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ رواں مالی سال 2024-25کے اختتام پر ملکی برآمدات 35ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی ۔مگر یہ قوم کو قرضوں کے چکر سے نکالنے کے لئے ناکافی ہے۔چنانچہ آنے والے دو سالوں میں برآمدات کو 60ارب ڈالر تک لے جانے کے لئے صنعتی شعبے کے لئے بجلی اور گیس کے نرخوں کو خطے کے دیگر ملکوں کے برابر لانا ہو گا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More