گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب کچھ تل پٹ ہوگیا

 

 

 

 

 

 

از:سہیل شہریار

افریقہ میں دنیا کے سب سے بڑے صحرا۔صحرائے اعظم یا صحاراکے 90لاکھ مربع کلو میٹر رقبے میں دودرجن کے قریب ملک آباد ہیں جن میں سے بیشتر کو موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں پچھلی دو دہائیوں سے شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب کچھ تل پٹ ہو گیا ہے ۔ مگر ماہرین فلکیات اس کی ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں جو ہم میں سے اکثر کے لئے نئی اور حیران کن ہو گی۔ وہ یہ ہے کہ صحارا کا علاقہ ہر 20 ہزار سال بعد 6 ہزار سال کے لیے ہرا بھرا ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ زمین کا محور خود 26 ہزار سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے ۔اور اس عمل کو Apsidal Precession کہتے ہیں۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1991-2020 کے بارشوں کے ریکارڈ کے مقابلے میں رواں سال جولائی تا ستمبر کا عرصہ نائیجر، چاڈ ، مغربی مالی اور نائیجیریاکے کچھ حصوں میں سب سے زیادہ بارشوں کاسیزن تھا۔
جبکہ سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاری سے منسلک افریقہ کے معاشی نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور گذشتہ پانچ برسوں میںیہ ساڑھے 12ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ جو گزشتہ تین دہائیوں کی اوسط سے دگناہے۔جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بدتر آنے والا ہے۔
صحرائے اعظم شمالی افریقا میں واقع ہے۔ اس کے مغرب میں بحر اوقیانوس، شمال میں کوہ اطلس، اور بحیرہ روم، مشرق میں بحیرہ احمر اور مصر اور جنوب میں دریائے نائجر کی وادی اور سوڈان واقع ہیں۔ صحرائے اعظم مختلف حصوں میں تقسیم ہے، جن میں وسطی کوہ ہقار، کوہ تبستی، کوہ ایئر، صحرائے تنیر اور صحرائے لیبیا شامل ہیں۔
موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ نے بارش کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے۔ افریقہ بھی 1970 سے 1990 کی دہائی تک طویل خشک سالی کے بعد گیلے مون سون کے کئی دہائیوں کے قدرتی دور سے گزر رہا ہے۔نتیجتاً شمالی، مغربی اور وسطی افریقہ ریکارڈ کی بدترین موسمی سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میںہے جس میں 20 ممالک میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہورہے ہیں۔جبکہ اس سیزن میں، صحارا پر شدید گرمی اور دیگر عوامل نے مون سون کی پٹی کو معمول سے زیادہ شمال کی طرف کھینچ لیا۔ جس کی وجہ سے عام طور پر بنجر صحرائی علاقوں میںشدید بارشیں ہوئیں۔


غربت کی وجہ سےصحارا کے بیشتر ملک بارشوں اور سیلاب کی قبل از وقت وارننگ کے مؤثر نہیں رکھتے ۔اور اگر کسی ملک میں یہ جدید سہولت موجود بھی ہے تو وہاں اس کی بر وقت اطلاع دور دراز علاقوں تک پہنچانے کا بندوبست نہیں ہے۔ ۔2023 میں، ڈبلیو ایم او اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے افریقہ میں آنے والی قدرتی آفات کے لیے پیشگی انتباہی نظام کو بہتر بنانے کا ایکشن پلان شروع کیا ہے۔ کیونکہ یہاں دنیا میں کہیں بھی اس طرح کے نظام تک رسائی کی سب سے کم شرح ہے۔

سیلاب اور بارشوں کی حالیہ تباہ کاریوں کے بعد سوشل میڈیا سڑکوں کے ندیوں میں تبدیل ہونے، آدھے ڈوبے ہوئے ٹرکوں اور بے گھر افراد کی ویڈیوز سے بھرا ہوا ہے۔مالی نے قومی آفت کی حالت کا اعلان کرتے ہوئے تعلیمی سال کے آغاز کو ایک ماہ پیچھے دھکیل دیا ہے کیونکہ سکول سیلاب کے باعث اپنے گھروں سے نکل جانے والے خاندانوں سے بھرےہوئے ہیں۔
اسیطرح چاڈ میں 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت میں رہتی ہے۔وہاں 20لاکھ پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے وسائل کی شدید کمی ہے۔ اور کیمپوں میں پڑے پناہ گزین کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More