از: سہیل شہریار
پاکستان میں منعقد ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت کا 23 واں اجلاس علاقائی معیشتوں کے فائدے اور بہتری کے لیے شاندار نتائج لانے کی توقعات کے ساتھ گذشتہ روز ختم ہوا تو اس اجلاس کے پاکستان میں انعقاد سے ملک کو حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں ہر خاص و عام تجسس کا شکار ہے۔
خواتین وحضرات
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہا ن حکومت کی کونسل کے موجودہ چیئرمین وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں درست نشاندہی کی تھی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کاسربراہی اجلاس دنیا کی 40 فیصد سے زائد آبادی کی اجتماعی آواز اور خواہشات کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا تھاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کی یہاںموجودگی ان کے تعاون، پائیدار ترقی اور علاقائی خوشحالی کو فروغ دینے کے اجتماعی جذبے کا ثبوت ہے۔یہ ایس سی اوکے رکن ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور متنوع اقوام کے درمیان تعاون کا ثبوت ہے۔ تنظیم کے ممالک میں ترقی، علاقائی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے ساتھ اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وفود کے سربراہان نے تنازعات کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور ایک خوشحال، پرامن، محفوظ، اور ماحولیاتی طور پر پائیدارزمین کی تعمیر کے لیے سیاست، سلامتی، تجارت، مالیات اور ثقافتی تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے گیارہ ایم او یوز پر دستخط کئے۔
تنظیم کے چیئرمین وزیر اعظم شہباز شریف کے ایما پرایس سی او کے رکن ممالک کے رہنماؤںنےعالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ اور لبنان میں غیر مشروط اور فوری جنگ بندی کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرے جس کے نتیجے میں 1967کی پوزیشن پر القدس کے دارالحکومت کے ساتھ فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام عمل میں آئے۔
اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس نے پاکستان عالمی سطح پر سفارتی کردار کو اجاگر کرنے کے ساتھ اسے رکن ممالک سے مل کر علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے یوریشین کنیکٹیویٹی میں اہم جغرافیائی لنک سے فائدہ اٹھانے کا ایک منفرد موقع فراہم کیاہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی اعلیٰ قیادت کے اجتماع نے نہ صرف پاکستان کو علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے دوطرفہ اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانےکا موقعہ دیا ہے۔ساتھ ہی اسے وسیع تر یوریشین کنیکٹیویٹی اقدام میں ایک ضروری کھلاڑی کے طور پر جگہ دی ہے۔کیونکہ ملک کی کراچی اور گوادر میں بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور موٹر ویز ایس سی او کی ریاستوں، خاص طور پر وسطی ایشیائی جمہوریتوں کے لیے گرمی پانیوں تک رسائی کے بہترین مواقع فراہم کرتی ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کے اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میںرکن ممالک نے سر سبز و شاداب علاقوں میں خطے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہوئے رکن ممالک کی پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی پر زور دیا۔ ترقی، ڈیجیٹل معیشت، تجارت، ای کامرس، فنانس اور بینکنگ، سرمایہ کاری، اعلی ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپس اور اختراع، غربت کا خاتمہ، صحت کی دیکھ بھال، سمیت روایتی اور لوک طب، زراعت، صنعت، ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس کنیکٹیویٹی، توانائی، قابل تجدید توانائی، مواصلات، سائنس اور ٹیکنالوجی، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں مشترکہ کاوشوں کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
اس اجلاس نے پاکستان کوعلاقائی مسائل پر اپنے اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر اپنی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اہم موقعہ فراہم کیا ہے۔جبکہ اس اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی ملاقاتیں اور معاہدے پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کے دروازے کھولیں گی۔جس میں روس کی سی پیک میں شمولیت کی باقاعدہ خواہش کا اظہار ایک بڑی پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کاپاکستان میں انعقاد وطن عزیز کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعدیہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ایونٹ تھا۔اس اجلاس میں چار ایٹمی قوتیں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے دو ممالک چین اور روس شریک ہوئے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ کیونکہ سی پیک کے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا جائزہ لیں تو یہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہونے کا واویلا کرنے والے کچھ ممالک اور اندرونی عناصر کے لیے یہ اجلاس بذات خود بہت بڑا جواب ہے۔
اسی طرح گیارہ برس بعد ایس سی او کے اجلاس کے موقعہ پر چینی وزیر اعظم لی چیانگ کی پاکستان آمد اور پاکستان اور چین کے وزرائے اعظم کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کی 13 یادداشتوں پر دستخط نمایاں کامیابی ہے ۔