از:سہیل شہریار
پاکستان میںگرے کرنسی مارکیٹ نے دوبارہ سر ابھارناشروع کر دیا ہے۔چنانچہ پڑوسی ملکوں کو ڈالروں کی سمگلنگ سے ملک کو ماہانہ لگ بھگ 50کروڑ ڈالر نقصان کا سامنا ہے
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گرے کرنسی مارکیٹ جو باقاعدہ ترسیلات زر کے دائرے سے باہر کام کرتی ہے پڑوسی ممالک کو ڈالر کی اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ سے دوبارہ ابھررہی ہے۔اس دھندے میں ملوث افراد اور ادارے ڈالر فروخت کرنے والوں کوسرکاری شرح سے 4 روپے فی ڈالر تک زیادہ کی شرح مبادلہ پیش کر کے ماہانہ تقریباً 50 کروڑ ڈالر حاصل کر رہےہیں۔
گرے مارکیٹ پر 2023 میں حکومت نے اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 340 روپے تک بڑھنے کے بعد کریک ڈاؤن شروع کیا تھا ۔جس کے نتیجے میں گرے ٹریڈنگ کو جزوی طور پر کنٹرول کر لیا گیا تھا۔ اب افغانستان اور ایران کو ڈالر زکی اسمگلنگ میں پھر سے اضافے کی وجہ سے یہ دھندا دوبار ہ ابھر رہا ہے۔ اور اسی نے مقامی مارکیٹ میں کرنسی کی زیادہ مانگ پیدا کی ہے۔
گرے مارکیٹ کی تیزی نے 2023میں معیشت کو ترسیلات زر میں 3 ارب ڈالر کمی ہونےسے نقصان پہنچایاتھا اور اسکا بنیادی محرک سرحد پار سے ہونے والی ڈالروں کی اسمگلنگ تھی۔
کرنسی ٹریدرز کی جانب سے ایک مرتبہ پھر اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ماہانہ 50 کروڑ ڈالر کے اخراج کے نتیجے میں رواں مالی سال 2024-25کے اختتام پرترسیلات زر میںملک کو 6 ارب ڈالرز تک نقصان ہو سکتا ہے۔کیونکہ مالی سال 2022-23میںگرے کرنسی مارکیٹ کے دھندے سے ملک کو ترسیلات زر میں 3ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا۔جو 27ارب ڈالر تک محدود رہی تھیں اور گذشتہ مالی سال 2023-24میں بڑھ کر 30.25ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق گرے مارکیٹ کے دوبارہ ابھرنے کے ساتھ ہی دبئی میں ڈالر کی شرح متاثر ہوئی ہے۔ جہاں یہ 285 روپے تک پہنچ گیا ہے جو اوپن مارکیٹ میں 280روپے میںفروخت ہو رہا ہے۔ گرے مارکیٹ میں زیادہ ریٹ کا مطلب یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں ڈالر روک دیا گیا ہے۔ اور اب ترسیلات زر روپے میں قانونی طریقوں کی بجائے حوالا سسٹم کے ذریعے بھیجی جائیں گی۔یہ رجحان پہلے ہی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے بینکوں کو فروخت کیے گئے ڈالر کی مقدار جون میں ساڑھے 44 کروڑ ڈالرکے مقابلے جولائی میں کم ہو کر ساڑھے 33کروڑ ڈالر ہوگئی ہے۔اور یہ صورت حال فوری حکومتی مداخلت کا تقاضا کرتی ہے۔