پاکستان کا بیرونی قرضہ 131ڈالر سے تجاوز کر گیا ،ذمہ دار کون ؟

 

 

 

از:سہیل شہریار

پاکستان کو اپنے 131ارب ڈالر کے بیرونی قرض میں سے 24.8ارب ڈالر کی ادائیگی رواں مالی سال 2024-25کے دوران کرنی ہےجس کے لئے سال کے آخری نو ماہ میں اکتوبر 2024سے جون2025 تک ملک کو قرض اور انکا سود اتارنے کے لئے 17.8ارب ڈالر درکا ہیں
سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کےتازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو جولائی میں 4.98 ارب ڈالر۔ اگست اور ستمبر میں 2 ارب ڈالر اور اکتوبر سے جون تک 17.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ رواں مالی سال کے دوران بیرونی ادائیگیوں کی کل 24.8 ارب ڈالر کی رقم میں سے 21.2 ارب ڈالر اصل زر ادائیگی اور 3.6 ارب ڈالر سود کی ادائیگی پر مشتمل ہیں۔
بنک دولت پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابقجاری مالی سال کے دوران ملک کو16.3 بلین ڈالر کی دستیابی متوقع ہے۔جبکہ غیر ملکی فنڈ کی بہتر آمد اور اعتدال پسند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے یہ ذمہ داریاں آرام سے اور وقت پر ادا کی جاسکیں گی۔
خواتین و حضرات
پاکستان کے بیرونی قرضوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انکا آغاز ملک کے معرض وجود میں آنے کے چند برس بعد ہی ہوگیا تھا۔ مگر آئی ایم ایف سے پہلا سٹینڈ بائی معاہدہ 1958 میں ہوا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔آج پاکستان اسکا 7ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔اور 7ارب ڈالر کے نئے قرضے کا معاہدہ حتمی مرحلے میں ہے۔1970میں ملک کے بیرونی قرض کی کل مالیت 3.4ارب ڈالر تھی۔ جو دس برس بعد 1980 میں 9.9ارب ڈالر اور 1990میں 20.6ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ نئی صدی کے آغاز پر مزید 13ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ سن2000میں بیرونی قرض کی مالیت 33ارب ڈالر ہو چکی تھی۔جنرل مشرف کے مارشل لا کے اختتام پر 2008میں پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 50.1ارب ڈالر پر پہنچ چکا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی کی حکومت میں اسکی مالیت64ارب ڈالر تک بڑھ گئی۔مسلم لیگ ن کے تیسرے دور اقتدار میں چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدوں کے نتیجے ملک کے بیرونی قرضے پانچ برسوں میں 35ارب ڈالر کے ریکارڈ اضافے کے نتیجے میں100رب ڈالر پر پہنچ گئے۔پھر پی ٹی آئی کی اڑھائی سالہ حکومت میں بھی صورت حال ابتر رہی اور بیرونی قرض کی مجموعی مالیت 130ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ بعد ازاں مخلوط حکومت کے دور میں یہ 126ارب ڈالر تک کم ہونے کے بعد اب دوبارہ 130ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2025 کے لیے بین الاقوامی ذخائر اور غیر ملکی کرنسی کی لیکویڈیٹی کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہےمالی سال 25 کے لیے درکار بیرونی ادائیگیوں کی کل رقم 26.2 بلین ڈالر سے تھوڑی کم ہے جس کا حوالہ اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے پیر کو مانیٹری پالیسی اجلاس کے بعد میڈیا اور تجزیہ کاروں کی بریفنگ کے دوران دیا۔
مجموعی مالیاتی ضروریات کے لحاظ سے، گورنر نے بتایا کہ کل 4 بلین ڈالر کی رقم سود کی مد میں ہے، اور 22 بلین ڈالر اصل ادائیگی کے لیے ہیں۔

اس 22 بلین ڈالر میں سے، 16.3 بلین ڈالر کی واپسی متوقع ہے، جس سے 10 بلین ڈالر کی ادائیگی باقی ہے۔ اس رقم میں سے، 1.1 بلین ڈالر جولائی میں ادا کیے گئے، جس کے نتیجے میں اس مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے لیے 9 بلین ڈالر کی خالص ادائیگی ہوئی۔
اسٹیٹ بینک کا تخمینہ ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر مالی سال 25 کے آخر تک 13 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے جو کہ موجودہ 9.1 ارب ڈالر سے 4ارب ڈالر زیادہ ہیں۔
جولائی کے شروع میں پاکستان نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹپیکج حاصل کیاہے۔جسکی حتمی منظوری منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اسی ماہ کے آخر تک دے گاا۔دوسری جانب پاکستان مجموعی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے ساتھ انکےفوری قابل ادائیگی 10ارب ڈالر سے زائد قرضوںکی تجدید کے لئے رضامندی حاصل کر چکا ہے۔اسی کے ساتھ قلیل مدتی مہنگے قرضوں کا ایک بڑا حصہ8 ارب ڈالر کے تجارتی قرضوں کو طویل مدتی کثیر جہتی قرضوں سے بدل دیا گیا ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More