از: سہیل شہریار
مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔اسرائیل اور ایران کی جانب سے دھمکیوں کے تبادلے کے بعد طویل عرصے سےعلاقائی جنگ کی لٹکتی تلوار اب ننگی ہو کر سامنے آگئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد منگل کے روز جنوبی لبنان مین فوجی آپریشن کے آغاز پرایران نے اپنے ردعمل میں ایک ہی دن مین اسرائیل پر2سو میزائل اور ڈرون داغ دئیے ہیں۔ساتھ ہی حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے حملے کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ اسی پر بس نہیں یمنی حوثیوں نے بھی ایک مرتبہ پھراسرائیل پر میزائل حملے کئے ہیں۔ جبکہ فلسطینی فدائین نے تل ابیب کے علاقے یافا میں میٹرو اسٹیشن پر حملے میں درجنوں افراد کوہلاک اور زخمی کر دیا ہے۔
خواتین و حضرات
یہ ہے اسرائیل غزہ اور لبنان کا تازہ منظر نامہ۔ جو ہر ذہن میںمتعدد سوالوں کو جنم دے رہا ہے کہ آگے کیا ہوگا ؟ کیا بات ایک بڑی علاقائی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے؟۔ کیا اسرائیل اور ایران کی ایک دوسرے کو دھمکیاں واقعی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔کیا اسرائیل پہلے شکست کھانے کے بعد اب جنوبی لبنان میں حزب اللہ کا صفایا کر سکے گا، وغیرہ وغیرہ
ایران نے اسرائیل پر یکم اکتوبر کو کئے جانے والے بڑے میزائل حملے کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کا جواب قرار دیا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے اس حملے جس میں 200کے قریب میزائل اور ڈرون داغے گئے تھے کا بھرپور جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔صیہونی وزیر اعظم ناتین یاہو نے منگل کو دیر گئے تہران کو خبردار کیا ہے کہ اس نے "بڑی غلطی” کی ہے۔ساتھ ہی اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نےایران کو ’سنگین نتائج‘ سے خبردار کیا ہے۔
اس لفظوں کی جنگ میں جوابی حملے کے دوران ا یران کی مسلح افواج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران کی سرزمین کے خلافکوئی کارروائی کی تو وہ اپنے میزائل حملے کو زیادہ شدت” کے ساتھ دہرائیں گے۔جبکہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جہاں یورپی ممالک کے ہم منصبوں کو فون پر بتایا کہ اگر اسرائیل نے "جوابی کارروائی کی تو ہمارا ردعمل اور بھی سخت ہو گا”۔وہیں بدھ کی صبح انہوں نے کہا کہ تہران نے امریکہ کو کسی بھی مداخلت کے خلاف خبردار کیا ہے۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی سے صرف دیرینہ اندیشہ کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ بالآخر پورے خطے میں ایک مکمل جنگ کا باعث بنے گی۔اب عملی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
حزب اللہ نے بدھ کے روز کہا ہےکہ اس کے جنگجو 2006 کے بعد پہلی بار اسرائیلی افواج کے ساتھ براہ راست جھڑپیں کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے اوڈیسہ گاؤں کے قریب لبنان میں دراندازی کی کوشش کی تھی، حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہےکہ انہیں نقصان پہنچایا اور انہیں پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ صیہونیوں نے ایک بار پھر غزہ کی طرح لبنان پر بھی توپخانے سے شدید گولہ باری کے ساتھ فضائی حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔اسرائیلی توپ خانے کی جانب سے جنوبی لبنان کے جن سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایاجا رہا ہے ان میں اوڈیسہ اور حسیبیہ نمایاں ہیں ۔ جبکہ فضائی حملوں میں دارالحکومت بیروت اور اسکے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے علاقوں پر شدید بمباری کی جا رہی ہے۔
ایسے میںفریقین سےعالمی سطح پر تحمل کے مظاہرےاور کشیدگی سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے مطالبات کے درمیان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بڑھتے ہوئے تنازعے سے نمٹنے کے لیے آج شب ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
2006میں حزب اللہ کو ٹھکانے لگانے کےلئے کی جانے والی اسرائیلی فوجی مہم – جس کا کوڈ نام آپریشن چینج آف ڈائریکشن تھا – کو بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور دو ماہ کے دوران شدید نقصانات اٹھانے کے بعد پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اب تقریباً دو دہائیوں کے بعداسرائیلی فوج نے منگل کو حزب اللہ کے خلاف جنوبی لبنان میں "محدود، مقامی اور ٹارگٹڈ” زمینی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن زمین پر موجود شواہداسکی نوعیت او ر اسرائیل نےجس پیمانے پر فوجیوں اور ٹینکوں کو اس آپریشن کے لیے متحرک کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لبنان پر طویل حملے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔اس لئے لگتا ہے کہ اب بات بڑی جنگ کی طرف بڑھ کررہے گی۔