از:سہیل شہریار
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کا ایگزیکٹو بورڈ کل 25ستمبر کو پاکستان کی جانب سے 37ماہ کی مدت پر مشتمل 7ارب ڈالر کے نئے قرض کے حصول کی درخواست پرغور کرے گا۔توقع ہے کہ آئی ایم ایف کا بورڈ تقریباًتین ماہ سے التوأ کےشکار قرض کے اجرأ کا معاملہ نمٹا دے گا۔ جس کا سٹاف لیول معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا ہے۔
آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس میں پاکستان کے علاوہ پرتگال ۔لائیبریا اور ترکیہ کی قرضوں کے حصول کے لئے درخواستوں پر بھی غور کیا جائے گا
پاکستان کے لئے نئے قرض کی منظوری میں تاخیر بنیادی طور پر اضافی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت کی وجہ سے ہوئی جو کہ کل2 ارب ڈالرہے۔ اس رقم میں سے 60 کروڑ ڈالر کم تھے ۔نتیجتاً، حکومت کو مارکیٹ سے انتہائی مہنگے داموں قرض لینا پڑا جس کی ضمانت ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) نے دی تھی۔ اگرچہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ قرض صرف آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے حاصل کیا گیا ہے اور اسے بغیر استعمال میں لائے لوٹا دیا جائے گا۔ اس کے باوجود دوست ملکوں کی جانب سے صرف 60کروڑ ڈالر کی اضافی رقم کا فراہم نہ کرنا باعث تشویش امر ہے۔
پاکستان جیسےقرضوں کے بوجھ تلے دبے ملکوں کے لئے آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصول عام طور پر دوسرے فنانسرز سے تعاون حاصل کرنے کے لیے ایک اہم شرط ہوتاہے۔کیونکہ آئی ایم ایف کے پروگرام قرض کی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں ۔تاہم، حالیہ رجحانات ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور ان رجحانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی یقین دہانی روایتی قرض دہندگان کے لیے اب کافی نہیں ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے معاملات میں۔
اگرچہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا بیشتر حصہ عالمی بنک اور ایشیائی ترققیاتی بنک کے قرضوں پر مشتمل ہے۔ اوریہ ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہیں ۔اس کے باوجود دو طرفہ قرض دہندگان بنیادی طور پر چین اور سعودی عرب کے ملکی معیشت کے حوالے سے اپنے خدشات ہیں۔اور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ملک اگرچہ سخت مالایتی پالیسوں کے ذریعے حاصل کردہ مجموعی معاشی استحکام کو سراہتے ہیں مگر ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس تشویش کی وجہ سے نجی شعبہ سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ مسئلہ کی جڑ یہ ہے کہ جی ڈی پی میں کوئی بھی نمایاں اضافہ قرضوں کے ڈیفالٹ کے خدشات کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان غیر معینہ مدت تک کم شرح نمو کے چکر میں نہیں پھنس سکتا کیونکہ اس کے سنگین سماجی و اقتصادی نتائج ہوں گے۔چنانچہ مجموعی طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصول ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔ لیکن یہ پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔طویل المدتی نقصانات سے بچنے کے لیے ملک کو سیاسی استحکام، قرضوں کی پائیداری، اور اقتصادی تنظیم نو کو حل کرنا چاہیے۔