امریکی صدارتی انتخاب: ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سخت مقابلہ جاری

 

 

 

 

 

 

از:سہیلر شہیریار

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں دونوں بڑی پارٹیوں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس میں سخت مقابلہ جاری ہے ۔ مگر تازہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ کملاہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والےصدارتی مباحثے کے بعد ہیرس کو اپنے مدمقابل پر معمولی برتری حاصل ہو گئی ہے۔
امریکہ میں ووٹر اپنا اگلا صدر منتخب کرنے کے لیے 5 نومبر کو حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ابتدائی طور پر اس الیکشن کو 2020کے صدارتی الیکشن کا ری پلے ہونا تھا۔مگر جولائی میں صدر جو بائیڈن صدارتی الیکشن کی دوڑ سے دستبردار ہوگئے اور اس انتخابی معرکے کے لئے اپنی نائب کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔جس نے اب اس بڑے سوال کو جنم دے دیا ہے کہ کیا اب کی بار امریکہ کو اپنی پہلی خاتون صدر ملے گی یا ٹرمپ کو صدارت کی دوسری مدت؟اسی لئے جیسے جیسے امیدواروں کی انتخابی مہمات الیکشن کے دن کی طرف بڑھ رہی ہیں اسی طرح اس معرکے میں لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔
امریکہ میں قومی سطح پر ہونے والےتازہ الیکٹورل پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ 10ستمبر کو پنسلوانیا میں ہونے والے صدارتی انتخابی مباحثے کے بعد کملا ہیرس کی پسندیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ جولائی میں صدارتی امیدوار بننے کے بعد سےتمام پولز میںڈونلڈٹرمپ سے پیچھے تھیں مگر اب انہیں اپنے مدمقابل پر دو سے اڑھائی فیصدپوائنٹس تک برتری حاصل ہو گئی ہے۔ اگرچہ یہ برتری کسی بھی صورت فیصلہ کن نہیں۔ مگر اہم بات ہیرس کے نمبروں کی دوڑ میں ٹرمپ سے آگے نکلنا قرار دی جارہی ہے۔ اس وقت ہیرس کی ووٹر پزیرائی کی شرح 48فیصد اور ٹرمپ کے لئے یہ شرح 46فیصد ہے۔

انتخابی سروے اور پولز کو اگرچہ صدارتی انتخابات میں ایک مفید رہنما قرار دیا جاتا ہے ۔جن سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ ایک امیدوار پورے ملک میں کتنا مقبول ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ انتخابات کے نتائج کی پیشن گوئی کرنے کا ایک درست طریقہ ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایک الیکٹورل کالج سسٹم استعمال کرتا ہے۔ جس میں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے سائز کے مطابق الیکٹورل ووٹ دیے جاتے ہیں۔ الیکٹورل کالج کے کل 538 ووٹ ہیں اور کسی امیدوار کو جیتنے کے لیے 270 ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔خواہ اسکے عوامی ووٹ اپنے مد مقابل سے کم ہوں۔
امریکہ میں 50 ریاستیں ہیںجن میں سے زیادہ تر ہمیشہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں۔ اس لیے حقیقت میں چند ہی ایسی ریاستیں ہیں جہاں جیت ہار کا فیصلہ ہوتاہے۔ اور یہی ووہ ریاستیں ہیں جنہیں امریکی صدارتی الیکشن میں میدان جنگ کے طور پر جاناجاتا ہے۔ان ریاستوں میں ایری زونا۔جارجیا۔مشی گن۔ناواڈا۔نارتھ کیرولینا۔ پنسلوانیا اور ویسکانسن شامل ہیں۔ان کے مجموعی الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 94 ہے ۔
اس وقت میدان جنگ کی ریاستوں میں مقابلہ بڑا سخت ہے جس کی وجہ سے یہ جاننا مشکل ہے کہ کون واقعی دوڑ میں آگے ہے۔حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ کئی ریاستوں میں امیدواروں کو الگ کرنے میں صرف نصف فیصد پوائنٹ کا فرق ہے۔ اس دوڑ میں پنسلوانیا بھی شامل ہے جو کلیدی ریاست ہے کیونکہ اس کے سب سے زیادہ 19 انتخابی ووٹ ہیںجن سے فاتح کے لیے مطلوبہ 270 ووٹوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
ہیریس کے ڈیموکریٹک امیدوار بننے کے بعد سے دوڑ کس طرح بدل گئی ہے۔یہ بات اس سے واضح ہوتی ہے کہ جس دن جو بائیڈن نے دوڑ چھوڑی تھی۔ وہ ان سات میدان جنگ کی ریاستوں میں ٹرمپ سے اوسطاً پانچ فیصد پوائنٹس سے پیچھے تھے۔مگر اب ان ریاستوں میں دونوں امیدوارایک سے دو فیصد پوائنٹس کے فرق سے سخت مقابلے میں ہیں اور جب دوڑ اتنی قریب ہو تو جیتنے والوں کی پیشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More