از: سہیل شہریار
یہ 10سالہ معصوم فاطمہ عبداللہ کا جنازہ ہےوہ ان 32 لبنانی شہریوں میں سے ایک ہے جو پچھلے دو دنوںمیں صیہونیوں کے لبنان میں سائب رحملوں کے دوران پیجرز ۔واکی ٹاکیز کے بیک وقت پھٹنے کے واقعات میںشہید ہوئے ہیں۔ عمومی خیال یہ ہے کہ یہ دھماکے ان آلات کی بیٹریوں کے پھٹنے سے رونما ہوئے ۔مگر ماہرین کی آرأ اس سے مختلف ہیں۔
غزہ پر مسلط اسرائیلی جنگ میں حماس کی حمایت میں لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر راکٹوں اور میزائیلوں کے حملوں میں صیہونی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کاروائیوں کے جواب میں جہاں اسرائیل نے لبنان کے ساتھ سرحد پر فوج جمع کر نا شروع کر دی ہے۔اور کسی بھی وقت لبنان کے کی سرحد پر بڑی کاروائی کا اندیشہ ہے۔ ساتھ ہی منگل اور بدھ کو باہمی رابطوں کے لئے استعمال ہونے والے الیکٹرونک آلات سمیت دیگر آلات کے ہزاروں کی تعداد میںبیک وقت پھٹنے سےاب تک 32افراد شہید اور4ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
گذشتہ دو روز کے دوران لبنان میں الیکٹرانک آلات کے پھٹنے کے واقعات پر جہاں حزب اللہ ملیشیا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ ہاشم صفی الدین کا کہنا ہے کہ لبنانی گروپ بڑے پیمانے پر حملوں کا جواب "خصوصی سزا” کے ساتھ دے گا۔کیونکہ اب ہم دشمن کے ساتھایک نئے تصادم میں ہیں۔
وہیں عالمی سطح پر الیکٹرانک آلات کے بطور دھماکہ خیز مواد استعمال کی مذمت کی جارہی ہے۔بین الاقوامی قانون اور عالمی امن کے لئے کام کرنے والے اداروں نے اپنے مذمتی بیانات میں کہا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بوبی ٹریپس پر پابندی ہے۔جبکہشہریوں کے زیر استعمال کسی چیز کو ہتھیار بنانا سختی سے ممنوع ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے بڑے پیمانے پر ہونے والے دھماکوں کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مذموم کاروائیوں سے پورے لبنان میںخوف اور دہشت پھیلی ہوئی ہے۔
لبنان میں پچھلے دو دنوں میں ہونے والےالیکٹرانک آلات کے پھٹنے کےمعاملے نے متعدد نظریات کو جنم دیا ہے کہ ان آلات کو کس طرح سبوتاژ کیا گیا۔ اگرچہ دھماکوں کے لئے استعمال کئے گئے طریقہ کار کی ابھی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔تاہم زیادہ تر بحث کا مرکز اس خیال کے گرد ہے کہان آلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کی بیٹریاں زیادہ گرم ہو کر پھٹ جاتی تھیں۔ مگر ماہرین نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیٹریاں جل تو سکتی ہیں مگر پھٹ نہیں سکتیںتاآنکہ انکے ساتھ کوئی اور حرکت نہ کی گئی ہو۔
ماہرین کی جانب سے آلات کے پھٹنے کی وجوہات کے حوالے سے اس وقت تک تین نظریات سامنے آچکے ہیں۔ جن میں سے مقبول ترین یہ ہے کہ پھٹنے والے اآلات میں انہیں بنائے جانے کے دوران دھماکہ خیز مواد نصب کر دیا گیا تھا۔ حزب اللہ نے چند ماہ قبل تائیوان کی ایک کمپنی سے 5ہزار واکی ٹاکیز خریدے تھے۔ خیال ہے کہ ان کی تیاری کے دوران اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ان میں دھماکہ خیز مواد نصب کروا دیا ہو۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ پھٹنے والے آلات کی سپلائی چین میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی ۔ سیکورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے حزب اللہ تک پہنچنے سے بہت پہلے ان آلات تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ تخریب کاری مینوفیکچرنگ یا ڈسٹری بیوشن کے مراحل کے دوران ہوئی تھی۔ جس سے اسرائیل کو بغیر کسی سراغ کے ان سےچھیڑ چھاڑ کرنے کا موقع ملا۔
جبکہ ایک نظریہ بھی ہے کہ ان آلات کے ساتھ جسمانی چھیڑ چھاڑ کی بجائے الیکٹرانک سگنل یا ریڈیو فریکوئنسی کا استعمال کرتے ہوئے دور سے دھماکہ کیا گیا ہو۔ ماہرین کے ایک گروپ نے رائے دی ہے کہ دھماکہ ریڈیو فریکوئنسی یا الیکٹرانک سگنل سےکیا گیا ہو گا۔ انہیں شبہ ہے کہ یہ سائب ر یا ریڈیو فریکوئنسی سگنل کے ذریعے فعال ایک جان بوجھ کر کی گئی جسمانی خرابی کا نتیجہ تھا۔