پاکستان کی سمندری حدود میں تیل اور گیس کے دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر کی دریافت

 

 

 

 

 

 

از: سہیل شہریار

پاکستان کی سمندری حدود میں تیل اور گیس کے دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر کی دریافت کے بعد اس حوالے سے نت نئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ مگر اس نئی تلاش کے حقائق کیا ہیں اور ان سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ درکار ہے ۔اس پر عموماً روشنی نہیں ڈالی جا رہی۔
پاکستانی قوم کو سنائی جارہی ملک کی تقدید بدلنے والی اس خوش خبری میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے ہم آج اپنے دیکھنے والوں کو اس سے آگاہ کریں گے۔
گذشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان کی حکومتوں نے ملک کی سمندری حدود میں تیل و گیس کی تلاش کا بیڑا اٹھایا مگر بات اعلانات یا تھوڑی بہت پیش رفت تک محدود رہی۔ حالیہ برسوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے مارچ 2019 میں بڑی میڈیا تشہیر کے ساتھ آف شور تیل وگیس کی تلاش کے آغاز اورجلد بڑی دریافت کا اعلان کیا۔ مگر تین ماہ بعد ہی جون میں اس کام کو تلاش میں ناکامی کے اعلان کے ساتھ کام بند کر دیا گیا۔ بعد ازاں 2021میں شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت نے اس کام کو دوبارہ شروع کیا تو اس کی ذمہ داری تیل و گیس کی تلاش کے قومی ادارے او جی ڈی سی ایل کو سونپی گئی۔اور ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں مہارت رکھنے والے دوست ملک کی مدد بھی حاصل کی گئی۔
اب کم و بیش تین سال کی تلاش و تحقیق کے بعد رواں ماہ کے آغازمیںحکومت کو اس بڑے ذخیرےکی متوقع موجودگی کی نوید سنائی گئی ہے۔ تیل وگیس کے اس ذخیرے کی حقیقی مقدار کے بارے لگائے گئے تخمینوں کے مطابق یہ دنیا کا تیل و گیس کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہو سکتا ہے۔تاہم حتمی طور پر وہاں کنوؤں کی کھدائی اور پیداوار کے آغاز کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اگر اتنی بڑی مقدار میں تیل اور گیس دریافت ہوئی ہے تواس سے قرضوںمیں جکڑے اور معاشی ابتری کا شکار پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔مگر اس پہلے تین سالوں کے دوران پیٹرولیم اور گیس کی تلاش کے لیے 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے تقریباً 240 مقامات کی کھدائی کی جائے گی۔اس ضمن میں نئی رپورٹ کے ڈیٹا پراعتماد کا اظہار کرتے ہوئےگذشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں ملکی و بیرونی کمپنیوں کی جانب سے آ ئندہ تین سالوں میں کم از کم 5ارب ڈالر سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تیل و گیس کی آف شور دریافت ہو بھی جائے تو ان ذخائر کو سسٹم میں لانے میں چار سے پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ اس عمل میں پروڈکشن پلیٹ فارمز کی تعمیر، پائپ لائنیں بچھانا، اور گیس پروسیسنگ پلانٹس کے قیام سمیت بنیادی ڈھانچے کی اہم سرمایہ کاری شامل ہے۔
ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اگر ذخائر کو کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے تو اس طرح کی دریافت پاکستان کی معیشت کی حرکیات کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے کیونکہ اگر ایک بھی دریافت ہو جائے جس کی پیداوار اور حجم دونوں ہی زیادہ ہوں تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے اور اس کے تمام غیر ملکی قرضے ادا کیے جا سکتے ہیں۔مگر اس وقت پاکستان کی مقامی پیداوار صرف 70,998 بیرل تیل اور 3,131 ایم ایم ایس سی ایف(ملین سٹینڈرڈ کیوبک فٹ) گیس یومیہ ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More