از:سہیل شہریار
کملا ہیرس کو صدارتی مباحثے میں بڑے پیمانے پر ریپبلکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بہتر کارکردگی دکھانے پر برتری کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی امریکی اور عالمی میڈیا اسے گومگو کا شکار ووٹروں کے لئے کسی فیصلے تک پہنچنے کا حامل قرار نہیں دے رہا۔
گذشتہ شب فلاڈیلفیا میں ہونے والے 90منٹ کے صدارتی مباحثے کو عمومی طور پر سخت مقابلے کی نشاندہی کرنے والا ایونٹ قرار دیا جا رہا ہے جس کے انعقاد کے بعد بھی معلق ریاستوں میں ووٹروں کی اکثریت میڈیا پولز میںکسی نتیجے تک پہنچتی دکھائی نہیں دے رہی۔ امریکی میڈیا میں تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں کی اکثریت اگرچہ صدارتی مباحثے میں ہیرس کی کارکردگی کو ٹرمپ کے مقابلے میں بہتر قرار دے رہی ہے۔ مگر ساتھ ہی اسے ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے ۔خصوصاً سات معلق ریاستوں میں ووٹرز کو کسی فیصلے تک پہنچنے میں مدد دینے کے لئے ناکافی قرار دے رہی ہے۔بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہیرس چونکہ نئی امیدوار ہیں اس لئے انہیں ووٹروںتک اپنا پیغام پہنچانے میں زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔جن کی اکثریت ابھی تک ہیرس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔
صدارتی مباحثے کے بعد امریکیوں کی بڑی تعداد جن کے امریکی اور بین الاقوامی میڈیانے انٹرویو کئے ہیں کی رائے ہےکہ ہیریس اور ٹرمپ سخت دوڑ میں ہیں اور ممکنہ طور پر مٹھی بھر میدان جنگ والی یعنی معلق ریاستوں میں انتخابات کا فیصلہ صرف دسیوں ہزار ووٹوں سے کیا جائے گا۔
اس پرفارمنس پر جس نے ہیریس کو پاپ سپر اسٹار ٹیلر سوئفٹ کی توثیق دلائی ہے۔ ہیرس کی انتخابی مہم کے لوگ خود کو فاتح ٹھہرا رہے ہیں۔ اور انکا کہنا ہے کہ ہیرس نے اسقاط حمل سے لے کر جمہوریت تک ہاٹ بٹن ایشوز پر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کوپچھاڑ دیا ہے۔اور اسی ضمن میں پہلے مزید صدارتی مباحثوں سے انکاری ڈیموکریٹس نے اب اکتوبر میں ٹرمپ کو دوسری بحث کے لیے چیلنج کیا ہے۔
سابق صدر نے فلاڈیلفیا میں اے بی سی نیوز کی میزبانی میں ہونے والے صدارتی مباحثے کو اپنا اب تک کا "بہترین مباحثہ”قرار دیا ہے۔
انتخابات میں دو ماہ سے بھی کم وقت کے ساتھ 59 سالہ ہیرس پر بائیڈن کی جگہ ڈیموکریٹک امیدوار کے طور پر اچانک تبدیل ہونے کے بعدکروڑوں کی تعداد میںناظرین کے سامنے پیش ہونے کا دباؤ تھا۔مگراس نے ٹرمپ کو حیران کر کے فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئےکئی مواقع پر اپنے مدمقابل کو کھری کھری سنائیں۔
اس سب کے باوجود امریکی صدارت کا فیصلہ معلق ریاستوں کے ووٹر کے پاس ہے جسے ایک 90منٹ کا صدارتی مباحثہ فیصلے تک پہنچانے کے لئے نا کافی ہے۔